نکاح اسلامی شریعت کے مطابق ایک عبادت اور اہم معاہدہ ہے، لیکن اس کے لیے وضو کا ہونا شرط نہیں ہے۔ تفصیل درج ذیل ہے
وضو کی شرط کا معاملہ
وضو کی شرط صرف ان عبادات کے لیے ضروری ہے جو طہارت کا تقاضا کرتی ہیں، جیسے
- نماز
- قرآن کی تلاوت کو چھونا
- طواف کعبہ
نکاح ایک شرعی معاہدہ ہے اور اس میں وضو کی شرط نہیں رکھی گئی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر دولہا یا دلہن بغیر وضو کے نکاح کریں تو نکاح بالکل صحیح ہوگا۔
نکاح کی شرائط
نکاح کے صحیح ہونے کے لیے بنیادی شرائط درج ذیل ہیں:
- ولی کی رضامندی: اگر لڑکی نابالغ یا غیر آزاد ہے تو اس کا ولی ہونا ضروری ہے۔
- ایجاب و قبول: دولہا اور دلہن یا ان کے نمائندوں کا نکاح کے وقت ایجاب و قبول کرنا۔
- گواہان کی موجودگی: کم از کم دو بالغ مسلمان مرد گواہان یا ایک مرد اور دو عورتوں کی موجودگی ضروری ہے۔
- حق مہر کا تعین: مہر کا تعین نکاح کے وقت ہونا چاہیے، چاہے اس کی مقدار کم ہو یا زیادہ۔
وضو کیوں مستحب ہے؟
اگرچہ وضو شرط نہیں ہے، لیکن یہ مستحب ہے کیونکہ
- وضو پاکیزگی کی علامت ہے اور ہر نیک عمل سے پہلے مستحب سمجھا جاتا ہے۔
- رسول اللہ ﷺ نے وضو کو پسند فرمایا اور متعدد مواقع پر وضو کرنے کی ترغیب دی۔
مسئلہ کے بارے میں علماء کی رائے
علماء کے مطابق:
- نکاح کے لیے وضو کا نہ ہونا نکاح کو فاسد نہیں بناتا۔
- لیکن نکاح جیسی اہم عبادت کے لیے پاکیزگی اور وضو کا اہتمام افضل ہے تاکہ اللہ کی برکت شامل ہو۔
وضو نکاح کے لیے ضروری نہیں، لیکن مستحب ہے۔ اگر بغیر وضو کے نکاح کیا جائے تو نکاح بالکل درست ہوگا، بشرطیکہ باقی شرائط پوری ہوں۔
البتہ پاکیزگی کا اہتمام کرنا ایک اچھا عمل ہے جو سنت کے قریب ہے۔