Islam

کیا جھوٹے مقدمے کا دفاع جھوٹے مقدمے سے کرنا جائز ہے؟

اسلام میں انصاف، دیانت اور صداقت کو بڑی اہمیت دی گئی ہے۔ جھوٹے مقدمے کا دفاع جھوٹے مقدمے سے کرنا یا جھوٹ سے جواب دینا جائز نہیں ہے، کیونکہ یہ عمل بھی جھوٹ اور دھوکہ دہی کے زمرے میں آتا ہے، جسے اسلام میں سختی سے منع کیا گیا ہے۔

اسلام میں جھوٹ کی ممانعت

اسلام میں جھوٹ بولنے کو گناہ اور حرام قرار دیا گیا ہے۔ قرآن مجید میں جھوٹ بولنے والوں کے بارے میں سخت احکامات ہیں:

“اللہ تعالیٰ جھوٹ بولنے والے اور گناہگار کو پسند نہیں کرتا۔”
(سورہ النساء: 107)

اسی طرح، نبی کریم ﷺ نے فرمایا

“جھوٹ گناہ کی طرف لے جاتا ہے، اور گناہ جہنم کی طرف لے جاتا ہے۔”
(صحیح بخاری و صحیح مسلم)

جھوٹ بولنا یا جھوٹے مقدمے کا دفاع جھوٹ سے کرنا اس اصول کے خلاف ہے۔

ظلم اور انصاف کا تقاضا

اسلام میں انصاف اور عدل کی تلقین کی گئی ہے۔ جھوٹے مقدمے کے جواب میں دوسرا جھوٹ بولنا نہ صرف عدالت کے نظام کو متاثر کرتا ہے بلکہ اس سے اصل مسئلے کا حل بھی نہیں نکلتا۔ اس کے بجائے، اپنے مقدمے کی صحیح بنیاد پر صفائی پیش کرنی چاہیے اور حقائق کو واضح کرنا چاہیے۔

مشکل وقت میں سچائی کا دامن تھامنا

بعض اوقات جھوٹے مقدمے کا سامنا کرنا مشکل ہوتا ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم بھی جھوٹ کا سہارا لیں۔ ایسے وقت میں اللہ پر توکل اور انصاف کے مطابق فیصلہ کی دعا کرنی چاہیے۔ نبی کریم ﷺ نے ہمیں مشکلات میں صبر اور سچائی کے ساتھ رہنے کی تاکید فرمائی ہے۔

قانونی دفاع کے جائز ذرائع

اگر جھوٹے مقدمے کا سامنا ہے، تو قانونی دائرے میں رہتے ہوئے سچائی پر مبنی دلائل اور شواہد کے ساتھ دفاع کرنا بہتر ہے۔ اسلامی اصولوں کے مطابق اپنے دفاع میں ہمیشہ سچائی اور حق کا دامن تھامنا چاہیے۔

جھوٹے مقدمے کا دفاع جھوٹ سے کرنا اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے، کیونکہ یہ جھوٹ اور دھوکہ دہی کے زمرے میں آتا ہے۔ اسلامی نقطہ نظر سے انصاف اور سچائی پر مبنی دفاع کرنا ضروری ہے، اور مشکلات میں اللہ پر توکل کرتے ہوئے سچائی کا راستہ اختیار کرنا افضل ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button