اسلام میں نامحرم عورت کی آواز سننا اصولی طور پر جائز ہے، بشرطیکہ نیت پاک ہو اور بات چیت میں احترام اور شائستگی کا دامن نہ چھوڑا جائے۔ قرآن اور احادیث میں اس بات کا ذکر ملتا ہے کہ عورتیں مردوں سے بات کر سکتی ہیں، لیکن نرمی، پردے اور اخلاقیات کا لحاظ رکھا جائے۔
قرآن کی ہدایت
اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو مخاطب ہو کر فرمایا کہ جب نامحرم مردوں سے بات کریں تو آواز میں لچک پیدا نہ کریں:
“اپنی بات میں نرمی نہ کرو کہ دل کی خرابی والا (کوئی شخص) لالچ میں آ جائے۔”
(سورہ الاحزاب: 32)
اس آیت کا مقصد یہ ہے کہ عورتیں نامحرم مردوں سے بات چیت میں شائستہ اور باوقار رہیں تاکہ فتنے کا امکان نہ ہو۔
گفتگو کا مقصد اور انداز
- جائز ضرورت کے تحت گفتگو: اگر کسی نامحرم سے بات کرنے کی ضرورت ہو، جیسے کاروباری معاملے، تعلیم، یا کسی مسئلے کے حل کے لیے، تو یہ جائز ہے۔
- آواز میں شائستگی: بات چیت میں نرمی اور شائستگی ہو، مگر غیر ضروری لچک یا دلکش انداز نہ ہو تاکہ غلط نیت یا خیالات پیدا نہ ہوں۔
غیر ضروری بات چیت سے پرہیز
- اگر نامحرم سے بات کرنا ضروری نہیں ہے تو بہتر ہے کہ اجتناب کیا جائے، کیونکہ غیر ضروری بات چیت فتنے کا باعث بن سکتی ہے۔
- نبی کریم ﷺ نے فتنے سے بچنے کے لیے پردے اور حدود کی پاسداری کی تاکید فرمائی ہے۔
اسلام میں نامحرم عورت کی آواز سننا یا اس سے بات کرنا جائز ہے، بشرطیکہ بات چیت شائستہ اور باوقار ہو اور ضرورت کے تحت ہو۔ آواز میں لچک یا دلکشی پیدا نہ کی جائے تاکہ فتنے کا خطرہ نہ ہو۔ غیر ضروری بات چیت سے گریز کرنا افضل ہے۔