اسلام میں مزاح اور خوش طبعی کی اجازت ہے، بشرطیکہ اس میں کوئی غیر اخلاقی یا ناپسندیدہ بات نہ ہو اور کسی کا دل نہ دکھایا جائے۔ اسلام میں مسکرانا اور خوش اخلاقی سے پیش آنا پسندیدہ عمل ہیں، اور نبی کریم ﷺ نے بھی اپنے صحابہ کرامؓ کے ساتھ مزاح کیا ہے، مگر ہمیشہ سچائی اور شائستگی کے دائرے میں رہ کر۔
نبی کریم ﷺ کا اندازِ مزاح
- نبی کریم ﷺ مزاح کرتے تھے، مگر آپ ﷺ کا ہر مزاح سچ پر مبنی ہوتا تھا۔ آپ ﷺ نے کبھی جھوٹ یا دل آزاری پر مبنی مذاق نہیں کیا۔
- ایک مثال میں، ایک عورت نے آپ ﷺ سے جنت میں جانے کے بارے میں پوچھا، تو آپ ﷺ نے ہنستے ہوئے فرمایا: “بوڑھی عورتیں جنت میں نہیں جائیں گی۔” یہ سن کر وہ عورت پریشان ہو گئی، تو آپ ﷺ نے وضاحت کی کہ “اللہ تعالیٰ انہیں جنت میں دوبارہ جوان بنا کر داخل کرے گا۔”
(ترمذی)
مزاح کے آداب
- سچائی پر مبنی ہو: مزاح کرتے وقت سچائی کو نظرانداز نہ کریں۔ جھوٹ پر مبنی مزاح اسلام میں ناپسندیدہ ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: “ہلاکت ہے اس شخص کے لیے جو لوگوں کو ہنسانے کے لیے جھوٹ بولتا ہے۔”
(ابو داؤد) - کسی کا دل نہ دکھایا جائے: مزاح ایسا نہ ہو جو کسی کے جذبات کو مجروح کرے، یا کسی کا مذاق اڑائے۔ قرآن مجید میں فرمایا گیا
“اور تم میں سے بعض لوگ دوسروں کا مذاق نہ اڑائیں۔”
(سورۃ الحجرات: 11) - مقدسات کا مذاق نہ ہو: اللہ، رسول، قرآن، دین یا کسی مذہبی معاملے کا مذاق سختی سے ممنوع ہے اور یہ ایمان کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔
- اعتدال سے ہو: ضرورت سے زیادہ مزاح کرنے سے انسان کی سنجیدگی اور وقار کم ہو جاتا ہے۔ اسلام میں ہر چیز میں میانہ روی پسندیدہ ہے۔
اسلام میں مذاق کرنا جائز ہے، بشرطیکہ اس میں سچائی ہو، کسی کی دل آزاری نہ ہو، مذہبی یا اخلاقی حدود کی پاسداری ہو، اور اعتدال سے ہو۔ اس طرح کا مزاح نہ صرف جائز ہے بلکہ یہ خوش اخلاقی اور معاشرتی تعلقات کو مضبوط بنانے کا ذریعہ بھی ہے۔