Islam

نماز میں آنکھیں بند کرنا صحیح ہے یا غلط؟

نماز کے دوران آنکھیں بند کرنے کے حوالے سے اسلامی شریعت میں کوئی صریح ممانعت یا حکم موجود نہیں ہے، لیکن علماء نے اس بارے میں مختلف آراء دی ہیں۔ نماز میں خشوع و خضوع (توجہ اور دلجمعی) برقرار رکھنا ضروری ہے، اور اس کے لیے آنکھیں کھلی یا بند رکھنے کا تعلق اس بات سے ہے کہ کس طرح انسان بہتر توجہ حاصل کر سکتا ہے۔

آنکھیں کھلی رکھنا سنت ہے

زیادہ تر علماء کے نزدیک نماز میں آنکھیں کھلی رکھنا سنت ہے، اور نبی کریم ﷺ بھی عموماً آنکھیں کھلی رکھ کر نماز ادا کرتے تھے۔ آنکھیں کھلی رکھنے سے انسان اپنے ارد گرد کی چیزوں سے آگاہ رہتا ہے، اور نماز کے دوران یہ اسلامی سنت کو زیادہ بہتر انداز میں اپنانے کا طریقہ سمجھا جاتا ہے۔

حدیث: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے نماز میں ہمیشہ آنکھیں کھلی رکھی تھیں، اور جب سجدہ کرتے تو آنکھیں اس مقام پر مرکوز رکھتے جہاں سجدہ کیا جاتا ہے۔

خشوع کے لیے آنکھیں بند کرنا جائز ہے

اگر کسی شخص کو آنکھیں کھلی رکھنے سے توجہ میں خلل پیدا ہوتا ہو یا باہر کے مناظر سے دھیان بٹتا ہو تو اس صورت میں خشوع و خضوع قائم رکھنے کے لیے عارضی طور پر آنکھیں بند کرنا جائز سمجھا جاتا ہے۔ بعض علماء نے اس کو مکروہ تنزیہی (ناپسندیدہ) کہا ہے لیکن حرام یا سخت مکروہ نہیں سمجھا۔

آنکھیں بند کرنے کی صورتیں

  • عارضی طور پر: اگر کسی خاص وقت یا حالت میں باہر کی چیزوں سے مکمل توجہ ہٹانے کے لیے عارضی طور پر آنکھیں بند کی جائیں تو یہ مکروہ نہیں۔
  • دائمی عادت: اگر کوئی شخص ہمیشہ نماز میں آنکھیں بند رکھے اور اسے اپنی عادت بنا لے تو یہ مکروہ ہو سکتا ہے، کیونکہ اس سے نماز کی اصل سنت اور عادات سے ہٹ جانے کا خدشہ ہوتا ہے۔

آنکھیں بند کرنے کے مفاسد

بعض علماء نے یہ رائے دی ہے کہ آنکھیں بند کرنے سے انسان نیند میں جا سکتا ہے، اور یہ سستی کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ اس لیے نماز میں آنکھیں کھلی رکھ کر توجہ مرکوز کرنا بہتر سمجھا جاتا ہے۔

نماز میں آنکھیں بند کرنے کا کوئی سخت حکم نہیں ہے، لیکن سنت یہی ہے کہ آنکھیں کھلی رکھی جائیں اور سجدے کی جگہ پر توجہ مرکوز رکھی جائے۔ اگر خشوع و خضوع برقرار رکھنے کے لیے آنکھیں بند کرنی ضروری ہو تو عارضی طور پر بند کرنا جائز ہے۔ تاہم، اس کو عادت بنانے سے بچنا بہتر ہے تاکہ نماز کی سنت اور اصل طریقے پر عمل ہو۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button