اسلام میں عورتوں کے لیے پردہ اور حجاب کا حکم موجود ہے، جس کا بنیادی مقصد خواتین کی عزت، حیاء، اور تحفظ کو یقینی بنانا ہے۔ چہرے کے پردے کے حوالے سے علماء میں مختلف آراء پائی جاتی ہیں، اور یہ اختلاف اس بات پر مبنی ہے کہ آیا چہرے کا پردہ واجب (لازمی) ہے یا مستحب (مستحب یعنی پسندیدہ)۔
چہرے کے پردے کے بارے میں علما کی دو اہم آراء
پہلی رائے: بعض علماء کے نزدیک چہرے کا پردہ واجب (فرض) ہے، یعنی عورت کو اپنے چہرے کو نامحرم مردوں سے ڈھانپنا چاہیے۔ ان علماء کا کہنا ہے کہ موجودہ دور میں فتنہ اور غیر محرم کی نگاہ سے بچنے کے لیے چہرے کا پردہ لازمی ہے۔ اس رائے کی بنیاد قرآن اور احادیث کے مختلف دلائل پر ہے۔
دلیل
قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمای
“اے نبی! اپنی بیویوں، بیٹیوں اور مومن عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکا لیا کریں۔”
(سورہ احزاب، آیت 59)
اس آیت میں ‘جلباب’ کا لفظ استعمال ہوا ہے، جس کا معنی پورے جسم کو ڈھانپنا ہے۔ اس سے بعض علما نے استدلال کیا ہے کہ چہرہ بھی شامل ہے۔
دوسری رائے: کچھ علماء کے نزدیک چہرے کا پردہ مستحب (پسندیدہ) ہے، لیکن فرض نہیں۔ ان کے مطابق، اگر عورت چہرے کا پردہ نہیں کرتی لیکن باقی پردے کی شرائط پوری کرتی ہے (یعنی سر، بال، گردن اور جسم کو ڈھانپتی ہے)، تو یہ بھی پردے کی شرط پوری ہو جاتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ نبی کریم ﷺ کے زمانے میں خواتین بغیر نقاب کے بھی باہر نکلا کرتی تھیں اور نبی ﷺ نے اس سے منع نہیں کیا۔
دلیل
ایک حدیث میں آیا ہے کہ جب حج کے موقع پر خواتین چہرے کا پردہ نہیں کرتی تھیں، تو نبی کریم ﷺ نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔
حدیث
“حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا نبی کریم ﷺ کے پاس آئیں اور ان کے کپڑے باریک تھے، تو آپ ﷺ نے انہیں فرمایا: ‘اے اسماء! عورت جب بالغ ہو جائے تو اس کے جسم کا کوئی حصہ نظر نہیں آنا چاہیے سوائے اس کے چہرے اور ہاتھوں کے۔'”
(ابو داؤد)
موجودہ دور میں فتنے کے اعتبار سے بعض علماء کا موقف
کچھ علماء کا کہنا ہے کہ اگر کسی علاقے میں فتنے کا خدشہ زیادہ ہو، یا عورت کے حسن اور چہرے سے فتنہ کا اندیشہ ہو، تو بہتر ہے کہ چہرے کا پردہ کیا جائے۔ اس رائے کے مطابق، فتنے سے بچاؤ کے لیے چہرے کا پردہ مستحب سے واجب کی طرف ہو جاتا ہے۔
اسلامی شریعت میں چہرے کا پردہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس میں مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔ کچھ علماء کے نزدیک چہرے کا پردہ واجب ہے، جبکہ کچھ کے نزدیک یہ مستحب ہے۔ اگرچہ یہ دونوں آراء اپنی جگہ موجود ہیں، لیکن اگر کوئی عورت چہرے کا پردہ کرتی ہے تو یہ احتیاط اور حیاء کے زیادہ قریب سمجھا جاتا ہے۔
لہذا، چہرے کے پردے کا معاملہ انفرادی حالات، فتنے کے خدشات اور عورت کی نیت پر منحصر ہو سکتا ہے۔ ہر عورت کے لیے بہتر ہے کہ وہ اپنے حالات اور معاشرتی فتنہ کو مدنظر رکھتے ہوئے علماء سے مشورہ کرے اور اس کے مطابق عمل کرے۔