اسلامی فقہ میں لُڈو یا دیگر تفریحی کھیل کھیلنے کے متعلق مختلف آراء پائی جاتی ہیں، اور یہ اس بات پر منحصر ہے کہ کھیل کس طرح اور کن مقاصد کے تحت کھیلا جا رہا ہے۔ یہاں لُڈو کھیلنے کے بارے میں مختلف اسلامی آراء کا جائزہ دیا گیا ہے:
بنیادی شرعی اصول
اسلامی شریعت میں ہر وہ کھیل یا کام جائز ہے جو:
- انسان کو فرائض (نماز، روزہ وغیرہ) سے غافل نہ کرے،
- وقت کے ضیاع کا سبب نہ بنے،
- جوا (قمار) یا کسی بھی حرام چیز کا حصہ نہ ہو،
- اور ایسی سرگرمی میں ملوث نہ کرے جو غیر اسلامی رویے کو فروغ دے۔
اگر کوئی کھیل ان اصولوں کے خلاف ہو تو وہ کھیلنا جائز نہیں۔ اگر لُڈو یا کوئی دوسرا کھیل ان شرائط کے مطابق کھیلا جائے تو عمومی طور پر اس میں ممانعت نہیں ہے۔
علما کی مختلف آراء
بعض علما لُڈو کھیلنے کو منع کرتے ہیں کیونکہ:
- یہ وقت کے ضیاع کا سبب بن سکتا ہے۔
- اس میں نرد (Dice) استعمال ہوتا ہے، جس کا ذکر بعض احادیث میں ناپسندیدگی کے ساتھ آیا ہے۔
- نبی کریم ﷺ نے نردشیر (ایک کھیل جس میں ڈائس کا استعمال ہوتا ہے) سے منع فرمایا، کیونکہ یہ کھیل عرب کے معاشرے میں جوا کا حصہ ہوا کرتا تھا۔
حدیث:
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
“جس نے نردشیر (ڈائس کا کھیل) کھیلا، گویا اس نے اپنے ہاتھ اللہ اور رسول کی نافرمانی میں رنگ لیے۔”
- (مسلم)
اس حدیث کی روشنی میں کچھ علما لُڈو جیسے کھیلوں سے بھی منع کرتے ہیں۔
کچھ علما کی رائے میں نیت اور طریقے پر منحصر
دوسری جانب، بعض علما کے نزدیک اگر لُڈو کھیلنا صرف تفریح کے لیے ہو، وقت کے ضیاع یا فرائض میں رکاوٹ کا سبب نہ بنے، اور کسی بھی قسم کی شرط یا جوا شامل نہ ہو، تو یہ جائز ہو سکتا ہے۔ ان علما کے مطابق کھیل کا مقصد صرف تفریح اور ذہنی سکون ہونا چاہیے۔
اگر لُڈو یا کوئی اور کھیل ناپسندیدہ سرگرمیوں یا عبادات سے غفلت کا باعث بنے، یا جوا یا شرط بندی پر مبنی ہو، تو یہ کھیلنا ناجائز ہے۔ تاہم، اگر اسے محض تھوڑی تفریح اور آرام کے لیے کھیلا جائے اور شریعت کے حدود کی پابندی کی جائے تو بعض علما اس کے جائز ہونے کی رائے رکھتے ہیں۔
لہٰذا، بہتر ہے کہ اس میں اعتدال اختیار کریں اور اسے اہم فرائض یا اسلامی اقدار سے غافل ہونے کا سبب نہ بنائیں۔