اسلام میں سود (ربا) کو سختی سے حرام قرار دیا گیا ہے، اور قرآن و حدیث میں اس کی حرمت کے متعدد دلائل موجود ہیں۔ سود کو حرام قرار دینے کی بنیادی وجوہات معاشرتی انصاف، انسانی ہمدردی، اور معاشی توازن کو برقرار رکھنا ہیں۔
سود کی حرمت کے دلائل قرآن میں
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے سود کے بارے میں نہایت سخت الفاظ استعمال کیے ہیں۔ چند آیات درج ذیل ہیں
سورۃ البقرہ، آیت 275:”جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ (قیامت میں) کھڑے نہ ہوں گے مگر جیسے وہ شخص کھڑا ہوتا ہے جسے شیطان نے اپنے اثر سے پاگل بنا دیا ہو۔ یہ اس لیے کہ انہوں نے کہا تھا کہ تجارت بھی تو سود ہی کی طرح ہے، حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام کیا ہے۔”
سورۃ البقرہ، آیت 278-279:”اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور جو سود باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو، اگر تم ایمان والے ہو۔ اور اگر تم نے (ایسا) نہ کیا تو تم اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کے لیے تیار ہو جاؤ۔”
سود کی حرمت کے دلائل حدیث میں
حضرت محمد ﷺ نے بھی سود کی حرمت پر بہت زور دیا ہے اور اسے کبیرہ گناہوں میں شامل کیا ہے۔ کچھ احادیث درج ذیل ہیں:
صحیح مسلم میں حضرت جابر بن عبداللہؓ سے روایت ہے کہ:”رسول اللہ ﷺ نے سود کھانے والے، کھلانے والے، اس کا گواہ بننے والے اور اس کو لکھنے والے سب پر لعنت فرمائی ہے اور فرمایا کہ سب گناہ میں برابر ہیں۔”
صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:”سود کے ستر دروازے ہیں اور سب سے کم درجے کا سود یہ ہے کہ آدمی اپنی ماں کے ساتھ بدکاری کرے۔”
سود کی حرمت کی حکمتیں
اسلام میں سود کی حرمت کے پیچھے مختلف حکمتیں ہیں
معاشرتی انصاف: سود کا نظام مالدار طبقے کو اور زیادہ مالدار بنا دیتا ہے، جب کہ غریب طبقہ قرضوں کے بوجھ تلے دب جاتا ہے۔ اس طرح سودی نظام میں مال کی تقسیم غیر منصفانہ طریقے سے ہوتی ہے، جو کہ اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہے۔
معاشرتی ہمدردی اور باہمی تعاون: اسلام ہمیں باہمی تعاون اور ہمدردی کا درس دیتا ہے۔ سودی نظام میں قرض دینا کاروبار بن جاتا ہے جس میں مالی فائدہ ہی مقصود ہوتا ہے، جب کہ اسلام چاہتا ہے کہ ہم ضرورت مند کی مدد بغیر کسی دنیاوی فائدے کی توقع کے کریں۔
اقتصادی توازن: سودی نظام میں دولت چند لوگوں کے ہاتھوں میں مرکوز ہو جاتی ہے، جس کی وجہ سے اقتصادی توازن خراب ہوتا ہے اور غریب لوگوں کو مواقع حاصل کرنے میں دشواری ہوتی ہے۔ اسلام میں دولت کی گردش اور دولت کی منصفانہ تقسیم پر زور دیا گیا ہے تاکہ معاشرے میں توازن برقرار رہے۔
سود اور غربت: سودی نظام میں غریب لوگ قرض لیتے ہیں اور قرض پر مزید سود دینا پڑتا ہے جس سے غربت بڑھتی ہے۔ سود غریب لوگوں کو مسلسل قرض کے بوجھ تلے رکھتا ہے اور معاشرے میں غربت میں اضافہ کرتا ہے، جو کہ اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہے۔
اسلامی متبادل
اسلام نے سود کی بجائے زکوٰۃ اور قرض حسنہ جیسے نظام متعارف کروائے ہیں تاکہ لوگوں کے درمیان دولت کی منصفانہ تقسیم ہو اور غربت میں کمی آئے۔ قرض حسنہ کا مطلب ہے کہ بغیر کسی سود کے ضرورت مند کو قرض دیا جائے اور اس سے مالی فائدہ نہ اٹھایا جائے۔ اسی طرح زکوٰۃ ایک مالی عبادت ہے جس میں دولت مند اپنے مال میں سے ایک مخصوص حصہ غریبوں اور مستحقین کو دیتے ہیں۔ یہ دونوں طریقے معاشرے میں باہمی تعاون اور ہمدردی کو فروغ دیتے ہیں۔
سود کی حرمت کی وجہ معاشی انصاف، باہمی ہمدردی اور اللہ کے احکامات کی پیروی کرنا ہے۔ سود سے اجتناب کرکے ہم نہ صرف اللہ کی ناراضگی سے بچ سکتے ہیں بلکہ معاشرتی اور اقتصادی توازن بھی قائم رکھ سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے سود کے نظام کو چیلنج قرار دیا ہے اور ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم اس سے بچیں اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی تعلیمات کے مطابق زندگی گزاریں۔